Friday, August 30, 2013

Shikwa

Shikwa :-

Roje Mahshar me be-khauf ghus jaunga Jannat me
Vahin se aaye the 'Aadam' voh mere baap ka ghar hai


Jawabe-Shikwa :-

In aamal ke sath tu jannat ka talabgar kya hai?
Vahan se nikale gaye the 'Aadam' to teri aukat kya hai?



------------- Allama Iqbal

Friday, August 23, 2013

Umar RajiAllaahu Ta'ala Anhu


عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ایک انصاف پسند حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک ہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتا گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔

عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتا کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر الممنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔

آ پ (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا کہ امیر الممنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : 1- گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ 2- عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3- باریک کپڑا نہ پہننا۔ 4- حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔

Friday, August 16, 2013

Gulam ki Baat

وسطی ایشیاء میں ایک بزرگ تھے۔۔۔ ملک میں قحط پڑا ہوا تھا۔۔ خلقت بھوک سے مر رہی تھی۔۔ ایک روز یہ بزرگ اس خیال سے کچھ خریدنے بازار جا رہے تھے کہ نہ معلوم بعد میں یہ بھی نہ ملے ، بازار میں انھوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ہنستا کھیلتا لوگوں سے مزاق کر رہا تھا۔۔
بزرگ ان حالات میں غلام کی حرکات دیکھ کر جلال میں آ گئے۔۔۔ غلام کو سخت سست کہا کہ لوگ مر رہے ہیں اور تجھے مسخریاں سوجھرہی ہیں۔۔۔
غلام نے بزرگ سے کہا۔۔۔ آپ اللہ والے لگتے ہیں۔۔ کیا آپ کو نہیں پتہ میں کون ہوں؟
بزرگ بولے تو کون ہے؟
غلام نے جواب دیا میں فلاں رئیس کا غلام ہوں۔۔ جس کے لنگر سے درجنوں لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو غیروں کا ،اس قحط سالی میں پیٹ بھر رہا ہے ۔۔وہ اپنے غلام کو بھوکا مرنے دے گا۔۔۔ جائیں آپ اپنا کام کریں آپ کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی۔۔۔

بزرگ نے غلام کی بات سنی اور سجدے میں گر گئے۔۔۔ بولے یا اللہ مجھ سے تو یہ ان پڑھ غلام بازی لے گیا۔۔۔ اسے اپنے آقا پر اتنا بھروسہ ہے کہ کوئی غم اسے غم نہیں لگتا۔ اور میں جو تیری غلامی کا دم بھرتا ہوں۔۔ یہ مانتے ہوئے کہ۔۔۔ تو مالک الملک اور ذولجلال ولااکرام ہے۔۔ اور تمام کائنات کا خالق اور رازق ہے. میں کتنا کم ظرف ہوں کے حالات کا اثر لے کر نا امید ہو گیا ہوں۔۔۔ بے شک میں گناہ گار ہوں اور تجھ سے تیری رحمت مانگتا ہوں اور اپنے گناہوں کے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔۔

Friday, August 9, 2013

Gadha Kaun Hai



ایک دفعہ ایک آدمی ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد جا رہا تھا ۔رکعات چھوٹنے کے خوف سے جلدی جلدی چل رہا تھا۔ راستے میں اس کا گزر کھجور کے درخت کے پاس سے ہوا،دیکھا کہ ایک آدمی ڈیوٹی کے لباس میں ملبوس کھجور توڑنے میں مشغول ہے۔ اسے دیکھ کر بہت متعجب ہوا اور سوچا کہ یہ کیسا آدمی ہے جو نماز کا اہتمام نہیں کرتا،اور کام میں اس قدر غرق ہے کہ گویا اس نے اذان سنی ہی نہیں۔ غصہ کی حالت میں زور سے چیخا اور کہا:اترو نماز کے لئے، آدمی نے اطمینان سے کہا، ٹھیک ہے،اترتا ہوں۔

پھر اس آدمی نے دوبارہ کہا:نمازپڑھنے کے لئے جلدی کرو،اے گدھے!اے گدھے!! یہ سن کر آدمی زور سے چیخا اور کہا: میں گدھا ہوں!!پھر کھجور کا ایک تنا توڑ کر جلدی جلدی اترنے لگا تاکہ اس کا سر پھوڑ دے۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے تولیہ سے اپنا ڈھانپ لیا تاکہ وہ پہچان نہ سکے اور دوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا۔ شدید غصے کی حالت میں وہ آدمی کھجور کے درخت سے اترا ،گھر گیا،نماز پڑھی،کھانا کھایا،تھوڑا آرام کیا اور پھر کام کی تکمیل کے لئے کھجور کے درخت کے پاس آیا۔ پھر تھوڑی دیر میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔

پھر وہی آدمی جو ظہر کے وقت نماز کے لئے کھجور کے درخت کے پاس سے گزرا تھا، عصر کی نماز کے لئے بھی اسی راستہ سے گزرا،پھر دیکھا کہ آدمی درخت کے اوپر اپنے کام میں مشغول ہے،لیکن اس دفعہ آدمی نے گفتگو کا انداز بدل دیا اور کہا : السلام علیکم، کیا حال ہے۔
اس نے جواب دیا،الحمدللہ،خیریت ہے۔آ
دمی نے کہا:سناؤ!! اس سال پھل کیسا ہے؟
اس نے کہا ،الحمدللہ ،اچھا ہے۔
آدمی نے کہا:اللہ تجھے توفیق دے اور تجھے رزق دے اور روزی میں برکت اور وسعت دے اور اہل وعیال کے لئے کئے گئے عمل اور کوشش کو رائیگاں نہ کرے۔
وہ آدمی یہ دعائیہ کلمات سن کر بہت خوش ہوا اور اس دعا پہ آمین کہا۔
پھر اس آدمی نے کہا:لگتا ہے کہ کام میں کافی مشغولیت کی وجہ سے آپ نے عصر کی اذان نہیں سنی!! اذان ہو چکی ہے،اور اقامت ہونے والی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ درخت سے اتر جاتے، تھوڑی دیر آرام کرتے اور نماز باجماعت پالیتے اور نماز کے بعد اپنے کام کو پورا کرلیتے۔اللہ آپ کی حفاظت کرے گا اور آپ کو صحت وتندرستی عطا کرے گا۔

یہ دعائیہ کلمات سن کر اس نے کہا: ان شاءاللہ ان شاءاللہ، اور درخت سے اترنے لگا، پھر اس آدمی کے پاس آیا اور گرم جوشی کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا اور کہا: اچھے اور عمدے اخلاق وعادات پہ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن ظہر کے وقت جو آدمی میرے پاس سے گزرا تھا اور جس بداخلاقی سے پیش آیا تھا،اگر میں اسے پالیتا تو اسے بتلا دیتا کہ گدھا کون ہے؟

یہ سن کر اس آدمی نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ کبھی کسی کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش نہیں آئے گا ،
سچ تو یہ ہے کہ برے اخلاق اور کڑوی زبان کے ساتھ کی گئی نصیحت بھی اثر نہیں کرتی اسی لیے علم کے ساتھ ساتھ حکمت بصیرت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے

Friday, August 2, 2013

Alla Ka Ziker


ایک درویش ایک رات بہت اخلاص کیساتھ اللہ کا نام لے رہا تھا شیطان نے اس سے کہایہ تیرا 

ذکر بے فائدہ ھے تو اسے یاد کررھا ھے اور اسکی طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا وہ اس 

بات پر شکستہ دل ھوکے سو گیا ذ کر کرنا موقوف کردیا خواب مین دیکھتاھے کہ حضرت خضر

تشریف لاے ھیں اور کہا تو نے ذکر کیوں چھوڑ دیا کہنے لگا جسکو یاد کررھا ھوں وہ جواب

نہیں دیتا اس سے معلوم ھوا اسے ھمارا اللہ کرنا پسند نیہں ھے حضرت خضر نے فرمایاکہ

اللہ فرماتا ھے اے بندے تیرا اللہ کہنا ھی میرا جواب ھے اگر تیرا پہلی بار اللہ کہنا قبول نہ

ھوتا تو دوسری بار اللہ کہنے کی تو فیق نہ ھوتی تیرا دوسری بار کہنا اسطرف اشارہ ھے کہ

تیرا پھلی بارکاذکر قبول ھوچکا ھے۔۔۔۔

معلوم ھوا بندے کاکام اسے یاد کرتے رھنا وہ جواب دے یانہ دے ھمارا کام دروازے پر دستک

دینا ھے مرضی اسکی وہ کھولے یہ نہ کھولے مگر وہ مہر بان تواعلان کرتا ھے تو مجھے یاد

کر میں تجھے یاد رکھتاھوں

خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں